Sunday, February 07, 2010

mohsin naqvi

عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرمسار ھوا تیری جستجو کر کے

کھنڈر کی تہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا
ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے

سنا ھے شھر میں زخمی دلوں کا میلہ ھے
چلیں ھم بھی مگر پیرھن رفو کر کے

مسافت شب ھجراں کے بعد بھید کھلا
ہوا دکھی ھے چراغوں کو بے آبرو کر کے

زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی
وہ خوش ھوا تھا سمندر کو آب جو کر کے

یہ کس نے ھم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے

جلوس اھل وفا کس کے در پہ پہنچا ھے
نشان طوق وفا زینت گلو کر کے

اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ھے
ھماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے

کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسن
ملا ھے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے

No comments:

Post a Comment